

April 2009

ہجرتِ مدینہ کے بعد مسلمان جب مدینہ آئے تو سولہ سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑ ھتے رہے ۔اس کے بعد جنگ بدر سے دو ماہ قبل یہ حکم نازل ہوا کہ اب مسلمان ہر نماز میں اپنا رخ بیت اللہ الحرام کی طرف کر لیا کریں ۔یہ حکم سورہ بقرہ کی آیات(142-150)میں آیا ہے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ ان کے پیشِ نظر یہ تھا ہی نہیں کہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ بنے ۔ لیکن ہجرتِ مدینہ کے فوراً بعد تبدیلیٔ قبلہ کا حکم دینے کے بجائے کچھ عرصہ بعد اس کے دینے کا مقصود یہ جانچنا تھا کہ یہود میں سے جو لوگ ساتھ ہوگئے تھے ان کے بارے میں واضح ہوجائے کہ کون اللہ اور رسول کا سچا وفادار ہے اور کس کو اپنے آبا کا طریقہ پیارا ہے ، (:2 143)۔وہ اگر سچے مومن ہیں تو آبائی قبلہ بدلنے کے باوجود وفادار رہیں گے ۔
مذہبی لوگ ہمیشہ خدا کے نام پر دنیا کے سامنے کھڑ ے ہوتے ہیں ۔ لیکن آہستہ آہستہ ان کی وفاداری کا رخ اپنے اسلاف، اپنی قوم اوراپنی تہذیب کی طرف مڑ تا چلا جاتا ہے ۔وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی سار ی دعوتی جدو جہد اللہ کے دین کے لیے ہورہی ہے ، لیکن درحقیقت وہ اپنے خاص فرقہ اور خیالات کی تبلیغ کی جدو جہد کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ فلاں حکم شریعت کا ہے ، لیکن درحقیقت وہ ان کے اپنے خاص فقہی مذہب اور مسلک کا فہم ہوتا ہے ۔
ایسے میں اللہ تعالیٰ امتحان کی کوئی نہ کوئی شکل پیدا کر دیتے ہیں ، جس کے بعد ایسے دینداروں کی قلعی کھل جاتی ہے ۔کوئی مرد قلندر اٹھتا ہے دلیل کی بنیاد پر دعوتِ حق ان کے سامنے رکھ دیتا ہے ، مگر یہ لوگ حق کے بجائے اپنے فرقہ اور نقطۂ نظر کوبنیاد بنالیتے ہیں ۔وہ دلیل کے بجائے جذبات اور اصول کے بجائے تعصب پر فیصلہ کرتے ہیں ۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کا فیصلہ کرتا ہے ، مگر وہ اس سے بے خبر اپنی دینداری کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں ۔
کیسا عجیب ہے خد اکا یہ امتحان اور کیسی عجیب ہے اس کے نام پر کھڑ ے ہوئے لوگوں کی ناکامی ۔


اپنےاس بھا یی کو د عا مین یاد رکھیے۔
" جزأك الله خير"
چوھدری عثمان علی۔
,xcitefun-10.gif[/IMG]

