

April 2009

خدا ایک زندہ ہستی ہے ۔ہر اس معنی میں زندہ جس میں ہم یہ لفظ بولتے ہیں ۔اس کی ہستی کا کوئی تصور تو ہمارے احاطۂ گماں میں نہیں آ سکتا، مگر اس کی صفات کا جو نقشہ قرآن نے کھینچاہے ، اس سے خدا کی شخصیت کا ایک مکمل اور بھرپور تعارف ہمارے سامنے آ جاتا ہے ۔اس تعارف سے خدا کی شخصیت کا غالب ترین پہلو یہ ہے کہ وہ الرحمن الرحیم ہے ۔
قرآن کریم کے گہرے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گرچہ خدا ایک جامع صفات ہستی ہے جس کی شخصیت کا ہر روپ باکمال ہے ، مگر خود اللہ تعالیٰ کو اپنی صفات رحمت ہی سب سے بڑ ھ کر پسند ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ وہ قرآ ن کریم کے آغاز پر اپنا پہلا تعارف اسی حیثیت سے کراتا اور اپنے صفاتی ناموں میں سے صرف ایک صفاتی نام ، الرحمن، کو اسم عَلم یعنی ذاتی نام کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔وہ اپنے پیغمبروں کے واقعات کے بیان میں سب سے بڑ ھ ان کے لیے تعریفی اسلوب اس وقت اختیار کرتا ہے جب وہ اس کے بندوں کے ساتھ نرمی اور رحمت کا معاملہ کرتے ہیں ۔ سیدنا ابراہیم اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے بیان میں جب ان عظیم پیغمبروں کی نرم روی کا ذکر چھڑ تا ہے تو خدا کے لہجے میں پھولوں کی نرمی آ جاتی ہے (129:9,75:11,143:3)۔
بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں اللہ اور رسول کی محبت کی باتیں تو بہت عا م ہیں ، لیکن رافت و رحمت کی تلقین عام ہے اور نہ اس کا کوئی نمونہ ہماری زندگی میں نظر آتا ہے ۔مذہبی آدمی کی پہچان جذباتیت، امریکہ دشمنی، فتوے بازی ، بے روح نمائشی دینداری، فرقہ واریت اور جلسے جلوس بن کر رہ گئے ہیں ۔لوگوں پر شفقت، ان کی خطاؤں سے درگزر، بڑ وں کا ادب، چھوٹوں کا لحاظ، ہمسائے کے حقوق ، اقربا پر انفاق، مخلوق خدا پر رحمت، انسانوں سے حسن سلوک، مسلمانوں کی خیر خواہی، غیر مسلموں سے خوش خلقی آج ہماری مذہبیت کا موضوع ہی نہیں ۔ اس کے بعد ہم کس منہ سے خود کو الرحمن الرحیم خداکا بندہ اور رؤف و رحیم نبی کا امتی کہہ سکتے ہیں ۔


اپنےاس بھا یی کو د عا مین یاد رکھیے۔
" جزأك الله خير"
چوھدری عثمان علی۔

