

April 2009
نماز
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو دین کا ستون قرار دیا ہے۔ اُستاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب’ ’میزان‘‘ کے باب قانون عبادات کے تحت،نماز پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ عامر گزدر صاحب نے اس کام کو ضروری توضیحات ،ترامیم اور اضافوں کے ساتھ عام فہم انداز میں سوال وجواب کی صورت میں مرتب کیا ہے۔قارئین کے لیے ہم اسے قسط وار شایع کررہے ہیں
نفل نمازیں
نوافل اوردین میں اُن کی بنیاد
سوال۔ نماز کی صورت میں کیا بس یہی عبادت ہے جو پروردگارِ عالم کو ایک بندۂ مومن سے مطلوب ہے ؟
جواب۔نماز کی صورت میں کم سے کم عبادت یہی ہے جس کا مسلمانوں کو مکلف ٹھیر ا یا گیا ہے ۔
:قرآن کا ارشاد ہے
َمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرً فَاِنَّ اللّٰهَ شَاکِرٌ عَلِيْم ٌ. (ا لبقرہ2 : 158)
’’اور جس نے اپنے شوق سے نیکی کا کوئی کام کیا ، اللہ اُسے قبول کرنے والا ہے ، اُس سے پوری طرح باخبر ہے ‘‘۔
:اِسی طرح فرمایا ہے
اِ سْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ .( ا لبقرہ2: 45)
’’(مصیبت کے موقعوں پر) صبر اور نماز سے مدد چا ہو‘‘۔
چنانچہ اِن ارشادات کے پیش نظر مسلمان اِس لازمی نماز کے علاوہ بالعموم نوافل کا اہتمام بھی کرتے ہیں ۔
:نبی صلی ا للہ علیہ وسلم کا اُسوہ ا ور آپ کے ارشادات
سوال۔اِس باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ کیا ہے ؟آپ نے اپنی زندگی میں جو نوافل پڑ ھے ہیں یا لوگوں کو اُن کی ترغیب دی ہے ، وہ کیا ہیں ؟
جواب:۔صحیح روایات کی روشنی میں اُن کی تفصیلات درج ذیل ہیں
فرض نمازوں سے پہلے
فجر سے پہلے
فجر سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم دو ہلکی رکعتیں پڑ ھ کر نماز کے لیے نکلتے تھے ۔ (بخاری،رقم593، 594)
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہاکا بیان ہے کہ آپ یہ رکعتیں فجر کا وقت ہوتے ہی پڑ ھ لیتے تھے ۔ (مسلم،رقم723)
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ کو اِن سے زیادہ کسی چیز پر مداومت کرتے نہیں دیکھا ۔ (بخاری،رقم1116)
اُنہی کا بیان ہے کہ آپ نے فرمایا : فجر کی یہ رکعتیں دنیا اور اُس کی ہر چیز سے بہتر ہیں ۔ (مسلم،رقم725)
ظہر سے پہلے
ظہر سے پہلے آپ کبھی دو ا ور کبھی چار رکعتیں پڑ ھتے تھے۔ (بخاری،رقم1119۔ مسلم،رقم729، 730)
مغرب سے پہلے
مغرب سے پہلے غالباً آپ نے خود توکوئی نماز نہیں پڑ ھی ، لیکن لوگوں کو ترغیب دی ہے کہ اللہ توفیق دے تو وہ اِس وقت بھی دو رکعت نماز پڑ ھیں ۔ چنانچہ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ زمانۂ رسالت میں صحا بۂ کرام بالعموم اِس کا اہتمام کرتے تھے ۔ (بخاری،رقم1129۔مسلم،رقم836،837)
:فرض نمازوں کے بعد
ظہر کے بعد
ظہر کے بعد آپ کا معمول تھا کہ نماز سے فارغ ہوکر گھر آتے تو دو رکعتیں پڑ ھتے ۔ (بخاری،رقم 1119۔مسلم،رقم730)
ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑ ھنے کی فضیلت بھی روایتوں میں بیان ہوئی ہے ۔ (ابو داؤد،رقم1269۱)
مغرب کے بعد
مغرب کے بعد بھی آپ کا طریقہ یہ تھا کہ نماز سے فارغ ہوکر گھر آتے تو دو رکعتیں پڑ ھتے ۔ (بخاری،رقم 1119۱۔مسلم،رقم730)
عشا کے بعد
عشا کے بعد بھی آپ کا معمول یہ تھا کہ نماز سے فارغ ہوکر گھر آتے تو دو رکعتیں پڑ ھتے ۔(بخا ری،رقم1119)
جمعہ کے بعد
جمعہ کی نماز کے بعد بھی آپ کا عام طریقہ گھر میں آ کر دو رکعت پڑ ھنے ہی کا تھا۔ (بخاری،رقم 895۔مسلم،رقم882)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ لوگوں کو آپ نے جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑ ھنے کے لیے بھی کہا ہے ۔ (مسلم،رقم881)
شب وروز کے نوافل کی فضیلت
نماز سے پہلے اور بعد کی اِن رکعتوں میں سے فجر کی دو ، ظہر کی چھ اور مغرب اور عشا کے بعد کی دو رکعتوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے اِن بارہ رکعتوں کا اہتمام کیا ، اللہ اُس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ (مسلم،رقم728)


اپنےاس بھا یی کو د عا مین یاد رکھیے۔
" جزأك الله خير"
چوھدری عثمان علی۔

