

April 2009

کیا آپ کو خدا سے محبت ہے ؟ میں نے ایک صاحب سے سوال کیا۔ چند لمحوں کے لیے تو وہ میرا چہرہ ہی دیکھتے رہے تاکہ میری دماغی حالت کا تعین کر سکیں ، پھر بدقت تمام انہوں نے کہا ’’شاید ہاں ‘‘۔ لیکن ان کا رد عمل یہ اعلان کر رہا تھا کہ میں نے انتہائی غیر متعلق سوال پوچھا ہے ۔ کچھ دیر بعد میں نے ان کے چھوٹے بیٹے کی خیریت دریافت کی۔ جواب میں وہ بے دریغ بولتے گئے وہ اس کی شرارتیں ، اس کی عادات اور اس کی تعلیم پر بے حد دلچسپی کے ساتھ گفتگو کرتے رہے ۔ دوران گفتگو ان کی باڈی لینگویج (Body language) یہ بتا رہی تھی کہ وہ کسی محبوب ہستی سے اپنے تعلق کا اظہار فرما رہے ہیں۔
کچھ عرصے بعد میں نے یہی سوال ایک مذہبی شخص سے کیا۔ ’’کیا آپ کو خدا سے محبت ہے ؟‘‘ لیکن اس کا رد عمل بھی مندرجہ بالا دنیا پرست انسان سے مختلف نہ تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اسے بزرگوں اور معروف مذہبی شخصیات سے محبت تھی۔ اسے ان کی کرامات میں تو دلچسپی تھی لیکن خدا کے معجزات سے وہ بے خبر تھا۔ اسے ولیوں کے ہواؤں میں اڑ نے پر تو حیرت تھی لیکن پرندوں کی پرواز پر کوئی اچنبھا نہ تھا۔
غرض میں نے یہی سوال مختلف مکاتب فکر کے افراد سے کیا۔ لیکن کسی نے بھی اس سوال کو سنجیدہ نہ لیا۔مجھے یہ جان کر بڑ ی حیرت ہوئی کہ وہ خدا جس نے اس کائنات کو عدم سے وجود بخشا اور جس نے انسان کو شعور کی دولت سے آراستہ کیا۔وہ خدا آج اس کائنات میں سب سے زیادہ نظرانداز ہستی ہے ۔ آج لوگ اپنی اولاد کی محبت میں گم ہیں ۔ انہیں اپنی آسائشوں سے محبت ہے ۔ یہاں تک کہ ان کی کوئی قیمتی چیز کھوجاتی ہے تو وہ اس کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں ۔ مگر خدا کی تلاش کے عمل سے وہ بالکل ناآشنا ہیں ۔
زمانۂ قدیم میں لوگوں کی دلچسپی کا مرکز چاند، سورج، تارے اور پتھروں سے بنے بت تھے جبکہ خدا کو انہوں نے پس پشت ڈال رکھا تھا۔ چناچہ خدا نے اپنے وجود کا احساس دلایا اور ان پر آسمانوں اور زمین سے عذاب نازل کیا۔
اس دور جدید میں لوگوں کی دلچسپی مٹی کے گھروں سے ہے ، آج لوگ موبائل فون کے فنکشنز (Functions) میں گم ہیں ، آج کار کی چمک ان کی آنکھیں خیرہ کر رہی ہے ، آج اولاد کی مسکراہٹ پر جانیں قربان کی جا رہی ہیں ، آج کنزیومرازم (Consumerism) کا عفریت لوگوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے ۔ اور آج دولت کی محبت دلوں میں گھر کر چکی ہے ۔ مگر خدا کی محبت عنقا ہے ۔
خدا نے کبھی یہ گوارا نہیں کیاکہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کر کے اور اس کے برابر کھڑ ا کر کے اسے پوجا جائے ۔ چناچہ خدا یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اس کو نظر انداز کر کے مخلوق کو خدا کا درجہ دے دیاجائے ، مخلوق کو محبت کا مرکز مان لیا جائے ، اگر خدا کو ساجھے داری یا برابری (شرک) نا پسند ہے تو یہ بات بدرجہ اولیٰ ناپسند ہے کہ کسی مخلوق کی محبت کو اس کی محبت پر ترجیح دی جائے ۔ وہ اگر کسی کی برابری پسند نہیں کرتا تو کسی کی فوقیت اور برتری کیسے برداشت کر سکتا ہے ۔
خدا ہی اس بات کا حقدار ہے کہ وہ چاہا جائے ، اس کی عظمت کے گن گائے جائیں ، اس کی عنایتوں کا چرچا کیا جائے ، اس کی عطاؤں کا ذکر کیا جائے ، اس کی ربوبیت کے قصے بیان ہوں ، اس کی محبت پر اشعار کہے جائیں ، اس کی یادوں کو دل میں بسایاجائے ۔
لیکن آج مخلوق سے محبت جتائی جا رہی ہے ۔ اور خالق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ یہ جرم شاید شرک سے بھی بڑ ا جرم ہے ۔ شرک کی بنا پر ماضی میں کئی بستیاں اجڑ چکی ہیں ۔ اور اس شدید تر جرم کی وجہ سے پوری انسانیت کا وجود خطرے میں ہے ۔ شاید وہ وقت قریب ہے جب کہ اس مادی دنیا کی ہر اس شے کو تباہ کر دیا جائے جو انسان کی محبت کا مرکز تھی۔اور پھر خدا وند غیب کے پردے سے عیاں ہوکر آپ سے یہ سوال کرے :
’’کیا تمھیں مجھ سے محبت تھی‘‘؟


اپنےاس بھا یی کو د عا مین یاد رکھیے۔
" جزأك الله خير"
چوھدری عثمان علی۔

